قادریم نعرۂ یا غوث اعظم محاذ نم دم ز شیخ احمد رضا خاں قطب عالم محاز نم
شیر بیشہ اہلسنت مظہر اعلیٰ حضرت رحمتہ اﷲ علیہ
ماشاء اﷲ بفضلہ تعالیٰ بیک وقت فاضل محقق ‘ مفتی و مدرس و مصنف و امام المناظرین سلطان المجاہدین یہ تھی ذات پاک شیر بیشہ اہلسنت علامہ الفتح عبید الرضا مولانا محمد حشمت علی خان صاحب قادری رضوی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کی جو اتباع مسلک اعلیٰ حضرت میں اپنے زمانہ کے فرد یکتا ویگانہ تھے‘ ماہ رواں محرم الحرام کی ۸ تاریخ کو آپ کا وصال ہوا۔ اس مناسبت سے چند یادگار و ناقابل فراموش واقعات نذر قارئین ہیں۔
آپ سگ بارگاہ بغداد سے اپنا سن ولادت بیان فرماتے تھے۔ شیر اسلام حضرت علامہ ابوالوقت مولانا شاہ محمد ہدایت رسول قادری برکاتی قدس سرہ نے آپ کا نام محمد صدیق رکھا اور والد ماجد ابن ابو الحفاظ محمد نواب علی خاں قادری برکاتی نوری ہدایت رسول نے محمد حشمت علی کے نام سے یاد کیا۔ محمد صدیق اور محمد حشمت علی دونوں ناموں میں روافض و خوارج کی کاٹ ہے کیونکہ مقام ولادت لکھنو روافض و خوارج کا گڑھ تھا۔ قرآن مجید قاری غلام طٰہ صاحب ٹونکی سے پڑھا اور حفظ قرآن عظیم مدرسہ فرقانیہ لکھنو میں مولوی اشرف علی تھانوی کے مرید سخت متعصب کٹر دیوبندی وہابی حافظ عبدالغفار سے پڑھا اور تجوید و قرأت کے بعد فارسی آمد نامہ مصدر فیوض سکندر نامہ ابوالفضل میزان الصرف تک دیوبندی وہابی اساتذہ سے لکھنو میں پڑھیں۔
سیدنا مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہرہ آفاق کتاب تمہید ایمان آپ نے دیکھی اور پڑھی تو دل کی دنیا بدل گئی۔ اب آپ اپنے بدعقیدہ اساتذہ سے بحث و مباحثہ کرکے ان کو ساکت کرنے لگے… ۱۳۳۵ھ شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدنا امام حجتہ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان بریلوی قدس سرہ و خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الشریعت مولانا محمد امجد علی اعظمی رضوی مصنف بہار شریعت قدس سرہ لکھنو تشریف لائے تو حضرت شیر بیشہ اہلسنت علیہ الرحمہ ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے اور امام اہلسنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے شرف بیعت کی تمنا ظاہر کی تو حضرت حجتہ الاسلام قدس سرہ نے فرمایا کہ فی الحال آپ وکالتا حضرت مولانا امجد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوجایئے اور جب آپ بریلی شریف لائیں تو حضور اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے تجدید بیعت کرلیں۔ ۱۳۲۶ھ میں آپ نے بریلی شریف حاضر ہوکر سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل کیا اور دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخل ہوکر درس نظامی کی تعلیم کا آغاز فرمایا۔ آپ کے اساتذہ میں حضور صدر الصدور صدر الشریعۃ علامہ محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ ‘ حضرت صدر الافاضل مراد آبادی قدس سرہ‘ مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفے رضا بریلوی‘ حضرت مولانا علامہ رحم الٰہی صاحب‘ مولانا نور الحسن صاحب رامپوری‘ مولانا ظہور الحسن صاحب رامپوری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہم جیسے اساطین امت اور عبقری مدرسین شامل ہیں۔
سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کے حسب حیثیت آپ کی جودت ذہن و انداز فکر کو دیکھ کر ولد مرافق غیظ المنافق کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔
۱۳۴۰ھ شعبان المعظم میں آپ جملہ علوم و فنون سے فارغ التحصیل ہوئے مرکزی جامع مسجد بی بی جی صاحبہ میں دارالعلوم منظر اسلام کے جلسہ دستار فضیلت میں آپ کی دستار بندی ہوئی۔
حجتہ الاسلام شیخ الانام جمال الاولیاء مولانا شاہ محمد حامد رضا خان بریلوی‘ سیدنا صدر الشریعۃ مولانا محمد امجد علی اعظمی رضوی‘ حضرت مفتی اعظم علامہ شاہ مصطفے رضا نوری‘ آل صاحب البرکات حضرت علامہ سیدنا سید ابوالقاسم اسماعیل حسن برکاتی قدس سرہ اور دیگر اکابر مارہرہ مطہرہ کے علاوہ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا سید فتح علی شاہ صاحب‘ حضرت بابرکت علامہ الشیخ ضیاء الدین قادری رضوی‘ حضور سیدی تاج العلماء مارہروی قاسمی برکاتی اور حضرت ابوالمساکین علامہ مولانا محمد ضیاء الدین قادری رضوی تلہری سے اجازت و خلافت حاصل ہے۔
سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے خطبات مبارکہ کا مجموعہ خطبات رضویہ بھی آپ کا مرتب کردہ ہے۔
آپ جماعت رضائے مصطفے کے مفتی و مرکزی مبلغ اور دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف کے نہایت کامیاب مدرس بھی رہے۔
شیر بیشہ اہلسنت میدان مناظرہ کے شہ سوار تھے۔ وہابیوں کا شیر پنجاب اور مدرسہ دیوبند کا فاضل مولوی ثناء اﷲ امرتسری پادرہ ضلع بڑودہ انڈیا میں آپ کے سامنے آیا۔ چیلنج مناظرہ دے بیٹھا۔ شیر بیسہ اہلسنت کے سامنے اس کی ساری چتک مٹک اچھل کود ختم ہوگئی اور وہ ساکت و جامد ہوگیا اس کا نقشہ حضرت ممدوح علیہ الرحمہ نے اپنے اس شعر میں کھینچا ہے۔
پادرے میں شیر پنجاب آیا میرے سامنے
میرے چالیس اعتراضات اس پر قائم رہ گئے
فتح یہ کس نے دلائی پیاری ترے نام نے
میرے آگے شیر قالیں کردیا تو نے اسے
جب مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے کے لئے شدھی سنگھٹن تحریک چلی تو آپ نے کل ہند جماعت رضائے مصطفے کی طرف سے نواح آگرہ متھرا میں پنڈت شردھا نند کو ان کے اجتماع میں جاکر ہاتھ پکڑ کر مناظرہ و مباہلہ کا چیلنج دیا۔ مگر شردھا نند مقابل نہ آیا اور فرار ہوگیا۔ ہزاروں مسلمانوں کا ایمان بچ گیا۔ آپ نے ہندو آریہ دھرم والوں سے ان کے پاٹھ شالہ میں جاکر مناظرہ فرمایا اور ان کو لاجواب و بے بس کردیا۔ آپ نے سیدنا حجتہ الاسلام قدس سرہ کی حکم پر آریہ دھرم والوں سے ایک مناظرہ فیروز پور چھائونی میں جاکر کیا۔ موضوع آریہ ہندوئوں کی کتاب وید الہامی خدائی کتاب ہے یا نہیں؟ آپ نے ویدوں کا غیر الہامی خود ساختہ ہونا ثابت کیا اور ہندو آریہ نیتا نتیا لاجواب ہوگئے۔ شہر بریلی شریف میں عیسائی پادریوں نے چیلنج مناظرہ دیا۔ حضرت شیر بیشہ اہلسنت علیہ الرحمہ بلا تکلف بلا خوف و خطر عیسائیوں کے چرچ گرجا گھر پہنچ گئے اور پادریوں سے عقیدہ تثلیث پر مناظرہ ہوا جس میں متعدد کہنہ مشق پادری آپ کے سامنے طفل مکتب ثابت ہوئے اور ان کو ان کے اپنے پسند کردہ موضوع پر شکست فاش ہوئی۔ یوں تو رافضیوں خارجیوں مرتد قادیانیوں مرزائیوں سے آپ کے متعدد اہم مناظرے ہوئے اور آپ کو ہمیشہ فتح و نصرت کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی لیکن لکھنو میں امام الخوارج مولوی عبدالشکور کاکوروی سے حفظ الایمان اور برائین قاطعہ کی گستاخانہ عبارات پر بمبئی میں آپ کا اور سیدی امام اہلسنت حضور محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کا مولوی مرتضیٰ حسن در بھنگی چاند پوری اور مولوی منظور سنبھلی سے مناظرہ اور ان کی شکست و فرار‘ راندھیر ضلع سورت میں مولوی محمد حسین مولوی عزیز گل کی شکست فاش‘ چندوسی ضلع مراد آباد میں مولوی ابوالوفا شاہجہاں پوری‘ مولوی منظور سنبھلی مولوی اسماعیل سنبھلی سے برائین قاطعہ اور فوٹو فتویٰ گنگوہی وغیرہ کی گستاخانہ عبارات پر مناظرہ۔ رنگون برما میں مولوی ابراہیم راندھیری اور بریلی شریف میں مولوی خیر محمد جالندھری کے استاد مولوی یاسین خام سرائے سے مناظرہ‘ ملتان شہر میں مولوی ابو الوفا شاہجہاں پوری‘ مولوی عطاء اﷲ بخاری احراری نان پارہ برائچ میں مولوی نور الحق لکھنوی‘ مولوی نور محمد ٹانڈوی ‘ مولوی حبیب الرحمن مٹوی‘ مولوی عبداللطیف سے مناظرہ صدر مناظڑہ حضرت قبلہ محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ تھے۔ بسڈیلہ ضلع بستی میں ڈیڑھ سو دیوبندی وہابی مولویوں سے مناظرہ اور ان کا فرار